Chamakte Andhere: A tale of Love and Loss

چمکتے اندہیرے

نصیر عطا

مصنف کی جانب سے

احساسات جب بکھرنے لگتے ہیں تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہزارہا خوشیاں اور نعمتیں حاصل ہونے کے باوجود بھی ہم کھوئے کھوئے سے رہنے لگتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ ہم اس ایک خوشی کے پیچھے ڈوڑ رہے ہوتے ہیں جو کبھی ہمارے نصیب میں لکھی ہی نہیں گئی تھی۔ اور کبھی کبھار تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ اللہ میاں نے ہمارے ساتھ نا انصافی کی ہے بلکل اسی طرح جس طرح امجد اسلام امجد صاحب نے کہا ہے

وہ تیرے نصیب کی بارشیں

کسی اور چھت پر برس گئیں

دل بے خبر میری بات سن

اسے بھول جا اسے بھول جا

ہاں شاید ایسا ہی ہوا ہے اور ہمارے حصے کی لکھی گئی وہ ایک خوشی جو ہمیں ساری خوشیوں سے زیادہ عزیز تھی وہ ہی کسی اور کے نشیمن کا پھول بن گئی ہو۔

یہ کہانی کبھی بھی ایسے شروع نہ ہوتی گر اس کے آخری حصے میں ذرا سی بھی تبدیلی آجاتی۔ کہانی کیسے شروع ہوگی یا ہونی ہے یہ تو صرف اس کے خاتمے پر ہی مبنی ہوتا ہے۔ اس کہانی نے چلتے چلتے بڑا ہی دلچسپ موڑ لے لیا تھا۔ یہ کہانی مکمل ہوئی یا نہیں یہ تو میں آج تلک نہیں جان پایا پر مینے اپنی طرف سے اس کو پورا کرنے کی مکمل کوشش کی تھی۔ مینے ہمیشہ سے ایسا ہی چاہا تھا کہ میری کہانی کا آغاز مئی کے گرم دن، ڈسمبر کی ٹھنڈی شام یا پھر ستمبر کی سنہری صبح سے ہو۔ پر یہ سب کہاں ممکن تھا؟

یہ کہانی شروع ہوتی ہے ایک حادثے سے۔ ایک ایسا حادثہ کے جس نے بہت کچھ بدل دیا۔ حادثات تو ویسے بھی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں کیوں کہ یہ ہمارے نصیب سے جڑے ہوتے ہیں۔ کوئی لاکھ چاہے پر پھر بھی انہیں بدل نہیں سکتا۔ کبھی کبھار یہ حادثات بہت گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں اور پھر وہ اثر ہمارے ساتھ تمام عمر کسی تازہ زخم کی مانند رہ جاتا ہے۔ کون جانے کہ یہ حادثہ کس نوعیت کا تھا؟

٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *