ننہی سی خواہشیں تھیں
گنتی کے خواب تھے بس
خوشیوں کے چند لمحے
پھر تو عذاب تھے بس
جس جس سے بھی مسلسل
خود کو تھا جوڑے رکھا
اس شخص نے ہی اکثر
ہم کو مروڑے رکھا
سب نے کیے تھے دعوے
کوئی سمجھ نہ پایا
مطلب کے لوگ تھے سب
اور بے حساب تھے بس
ننہی سی خواہشیں تھیں
گنتی کے خواب تھے بس
سارے ہمارے رہبر
ہم پر ہی ہنس رہے تھے
ہم سے ہی جھوٹے وعدے
ہم کو ہی ڈس رہے تھے
جب دیر تک تھا سوچا
تو یہ تھے جان پائے
سب جھوٹ تھا مسلسل
جھوٹے خطاب تھے بس
ننہی سی خواہشیں تھیں
گنتی کے خواب تھے بس
کس کس نےکس کو چاہا
کس کس کو کیا ملا تھا
جس جس نے جن سے پوچھا
کیا ان کو پوچھنا تھا
سوچا گیا تھا جس کو
اس کو بتا نہ پائے
سب بے بسی کی باتیں
الجھے جواب تھے بس
ننہی سی خواہشیں تھیں
گنتی کے خواب تھے بس۔
-نصیر عطا-